
علامہ اقبال شاعرِ انسانیت، مردِ آفاقی ! ان کی شخصیت کے ہر پہلو کو سمجھنے کے لیے "باقیاتِ اقبال” کی ضرورت
دنیا جوہری عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے۔ علامہ اقبال کے فلسفے "احترامِ انسان” کو اپنا کر اسے ٹالا جا سکتا ہے۔
: اقبال اکیڈمی جدہ کے عظیم الشان جلسہ اقبال سے ڈاکٹر تقی عابدی کا محققانہ خطاب
جدہ: مشہور و معروف دانشور، محقق، ماہرِ اقبالیات، شاعر و ادیب، ڈاکٹر سید تقی عابدی کی جدہ آمد کے موقع پر اقبال اکیڈمی جدہ (اقبال اکیڈمی حیدرآباد کی بیرونی شاخ) کے زیرِ اہتمام 26 دسمبر 2024ء کو ویلیج ریسٹورنٹ جدہ میں ایک عظیم الشان ادبی جلسہ کا انعقاد کیا گیا . جس میں ادب دوستوں، علمی شخصیات ، مختلف ادبی تنظیموں اور انجمنوں کے مندوبین نے شرکت کی۔ اس تقریب میں اقبال اکیڈمی جدہ کے نائب صدر اور جنرل سیکریٹری محمد فہیم الدین نے اقبال اکیڈمی جدہ کے مقاصد اور اس کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی.
جلسہ کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا، جس کی سعادت حافظ حماد خان نے حاصل کی۔ تلاوت کے بعدکمسن طلبہ حماد خان، عبدالسمیع اقبال اور عبدالمجیب اقبال نے کلام اقبال سے ماخوذ نظم دلکش اور خوش آہنگ اندازمیں پیش کی۔ اس کے بعد نوجوان طالبِ علم سید مصطفی معظّم نے خوبصورت اندازمیں کلام اقبال (نعت شریف) پیش کی- رکنِ شوریٰ و مشیر اقبال اکیڈمی جدہ، سراج وهاب نے جلسے کے شرکاء اور حاضرین کا استقبال کیا اور ان کے لیے کلماتِ خیر کہے-


مہمانِ اعزازی عامر خورشید رضوی چیئرمین مجلسِ اقبال، عالمی اردو مرکز نے کلیاتِ اقبال کا ایک اجمالی بیان خوبصورت انداز میں پیش کیا. اپنے اظہارِ خیال میں کہا کہ اقبال ایک عظیم فنکار ہونے کی حیثیت سے زمان و مکان کی قید سے آزاد ہیں ؛ ایک ایسا سمندر جس کا ذکر چند گھنٹوں اور مجالس میں ممکن نہیں. ان کے کلام و فکر کو نہ صرف برصغیر پاک و ہند بلکہ مشرق بعید، مشرق وسطیٰ، ترکی، ایران، افغانستان، یہاں تک کہ عالم عرب میں بھی پذیرائی حاصل رہی.
نہ چینی و عربی وہ، نہ رومی و شامی
سما سکا نہ دو عالم میں وہ مردِ آفاقی
اس کے بعد آصف قادری نے باقیاتِ اقبال سے ایک خوبصورت غزل کو مترنم انداز میں پیش کیا اور خوب پذیرائی حاصل کی۔
ایک اور مہمانِ اعزازی ، مشہور دانشور، شاعر و ادیب وحیدالقادری عارف نے اپنے اظہارِ خیال میں اقبال اکیڈمی جدہ کے اصحابِ مجاز، بالخصوص محمد فہیم الدین کی خدمات کی ستائش کی، انہوں نے کہا کہ آج کے اس عہد میں جبکہ علم و ادب سے بیگانگی عام ہے، لیکن یہ شمع اسی طرح روشن رکھی ہوئی ہےانہوں نے علامہ اقبال کی سرزمینِ حجاز سے والہانہ عقیدت پر روشنی ڈالی-
اے ارض پاک تیری حرمت پہ کٹ مرے ہم
ہے خوں تری رگوں میں اب تک رواں ہمارا
سالار کارواں ہے میر حجاز اپنا
اس نام سے ہے باقی آرام جاں ہمارا
ایک اور مہمانِ اعزازی ، محبِ اردو و محبِ اقبال سعودی شہری عبدالقدیر صدیقی نے اردو زبان میں اپنے اظہارِ خیال میں نبیرہ اقبال (آزاد اقبال)کے ساتھ اپنی رفاقت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ علامہ کے کلام میں شاعری، عشق، قومی اور خودمختاری کے مضامین نمایاں ہیں۔ انہوں نے اقبال کی نظموں میں روحانیت اور فلسفہ کے پہلوؤں کا تذکرہ کیا۔ انہوں نے عرب قوم سے علامہ اقبال کے خطاب کے تذکرے کا حوالہ بھی پیش کیا
اس موقع پر موجود جدہ کی ایک اور اعزازی مہمان و بزرگ شخصیت استاذ بیدل فہمی نعیم الحامدی نے مختصر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ آج ڈاکٹر تقی سے ان کی تالیف کردہ باقیات اقبال کی افادیت کو سن نے کے بعد مطالعہ اقبال مکمل ہوا اور کلماتِ خیر کہے
ڈاکٹر تقی عابدی کا خطاب
باقیاتِ اقبال کی اہمیت اور افادیت کے عنوان پر صدارتی خطاب میں صدر جلسہ ڈاکٹر تقی عابدی نے موجودہ نسل کو اقبال شناسی سے ہمکنار کرنے کے لیے اقبال اکیڈمی جدہ کی کوششوں کی بھرپور ستائش کی اور کہا کہ اس کی شدید ضرورت تھی۔انہوں نے نئی نسل میں اقبال شناسی کے فقدان کی طرف اشارہ کیا،انھوں نے اقبال کے مطالعہ کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ اگرچہ اقبال پر تقریباً 7000 کتابیں لکھی جا چکی ہیں، لیکن اقبال کے پیغام کو سمجھنے اور اس پر مزید تحقیق کرنے کی ضرورت اب بھی برقرار ہے۔ ڈاکٹر عابدی نے اس بات پر زور دیا کہ نئی نسل کو اقبال کے فکری ورثے سے آراستہ کرنا ضروری ہے تاکہ وہ اقبال کے پیغام کو صحیح معنوں میں سمجھ سکیں اور اس پر عمل کر سکیں۔
ڈاکٹر عابدی نے اقبال کے اشعار کی تعداد پر بھی روشنی ڈالی اور بتایا کہ اقبال کے مجموعہ کلام میں کل 16,708 اشعار شامل ہیں۔ ان کے مطابق، اقبال نے اپنے اردو کلام کا تقریباً 42 فیصد حصہ حذف کر دیا تھا۔ اس حذف کرنے کی وجوہات اور حالات پر بھی ڈاکٹر عابدی نے روشنی ڈالی، اور بتایا کہ اقبال نے اپنی شاعری میں کچھ اشعار کو خود بھی اس لیے ترک کیا تاکہ وہ اپنے پیغام کو مزید موثر اور جامع بنا سکیں۔
ڈاکٹر عابدی نے اقبال کے کام کی اہمیت پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اقبال کے تمام پہلوؤں بالخصوص ان کی نعتیہ شاعری کو محفوظ کرنا اور اس کی حفاظت کرنا ضروری ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اقبال کے کلام میں سے انھوں نے 751 اشعار کو نعتیہ کلام کے طور پر منتخب کیا ہے تاکہ اس میں اقبال کی دینی اور روحانی شاعری کا ایک واضح تصور سامنے آئے.
ڈاکٹر عابدی نے اس بات کی جانب بھی اشارہ کیا کہ اقبال کی زندگی کا ایک اہم پہلو ان کی “فنا فی رسول اللہ ﷺ” کی حقیقت ہے۔ انھوں نے اقبال کے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ان کے روحانی تعلقات پر بھی روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر عابدی نے چند اہم واقعات کا ذکر کیا جو اقبال کی نبی کریم ﷺ سے عقیدت اور محبت کو واضح کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اقبال ہمیشہ اپنے کلام میں نبی اکرم ﷺ کی عظمت اور مقام کا ذکر کرتے تھے اور ان کی شاعری میں ایک خاص روحانیت اور پیغمبرانہ رہنمائی کا اثر تھا۔
ڈاکٹر عابدی نے اقبال کے اس عظیم روحانی رشتہ کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ اقبال کی زندگی اور ان کے اشعار میں یہی تعلق جھلکتا ہے، جو آج بھی مسلمانوں کے لیے رہنمائی کا باعث ہے۔
ڈاکٹر عابدی نے اقبال کی حساسیت اور دلی جذبات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ اقبال ایک بہت حساس شاعر تھے جنہیں زندگی کے مختلف مراحل میں ذاتی مشکلات، بیماریوں اور مالی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا۔ انھوں نے اقبال کی مالی مشکلات اور ان کی ذاتی جدوجہد کو اجاگر کیا، جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے دنیا کو ایک عظیم فکری پیغام دیا۔ انھوں نے کہا کہ اقبال کی شاعری میں جو گہرائی اور تاثر ہے، وہ ان کی ذاتی زندگی کی تلخیوں اور درد کا عکاس ہے اور یہی چیز اقبال کے پیغام کو آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہے
ڈاکٹر عابدی نے اس موقع پر اقبال کے اس پیغام پر بھی زور دیا کہ اقبال کا پیغام انسانوں کے لیے آزادی، خودمختاری اور اپنی فطرت کو پہچاننے کا ہے۔ انھوں نے اس بات کو اجاگر کیا کہ اقبال کا مقصد اسلام کے مخصوص نظریات کو پروان چڑھانا نہیں تھا، بلکہ انسانوں کی آزادی اور خودمختاری کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
ڈاکٹر عابدی نے اقبال کی شاعری میں انسانیت کی عظمت کو ایک اور اہم پہلو قرار دیتے ہوئے کہا کہ اقبال نے یہ ثابت کیا کہ اقبال نے ثابت کیا کہ انسان اگر اپنی عظمت کی بلندیوں کو پہنچ جائے تو کائنات کی وسعت بھی اسے اپنے اندر سما نہیں سکتی، لیکن اسے یہ عروج اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک وہ اسوہ رسول (صلى الله عليه وسلم) کو اپنی زندگی میں مکمل طور پر لاگو نہ کرے۔
انہوں نے علامہ کی نوجوانوں سے امیدوں کا تذکرہ کیا
نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
انہوں نے بتایا کہ قوم زندہ رہتی ہے روایت کی، تہذیب کی حفاظت سے، اور ایک قوم مر جاتی ہے جب وہ زندگی کے مقاصد کو چھوڑ دیتی ہے۔
انہوں نے لقمۂ حلال کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے بتایا کہ حقیقی علم اور حکمت صرف حلال رزق سے حاصل ہو سکتی ہے اور یہی عشق و ایمان کا آغاز بھی ہے۔
ڈاکٹر عابدی نے اس بات پر زور دیا کہ آج اقبالیات کو تعلیمی نصاب اور مکتبوں میں شامل کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ ان کا کلام اور فلسفہ تمام تعلیمی سطحوں کے لیے مناسب ہے اور نسلوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہے
انہوں نے اپنی بہترین تقریر کا اختتام ان الفاظ کے ساتھ کیا کہ علامہ اقبال کے کلام کا مبدأ قرآن کریم ہے اور قرآن ایک ایسی ہدایت ہے جو 10,000 سال بعد بھی ہر دور کی رہنمائی فراہم کرے گی۔ یہ کتاب لایزال کتاب ہے، بلکہ ہر دور کے لیے یہی کتاب ہے
رسمِ رونمائی کتب
اس موقع پر دو کتابوں کی رسمِ رونمائی بھی انجام دی گئی
اس تقریب میں ایک اور اہم مقام اس وقت آیا جب اقبال اکیڈمی جدہ نے دو اہم کتابوں کی رسم رونمائی کی۔ پہلی کتاب IQBAL A SCIENTIFIC APPROACH”” ہےجو کہ حیدرآبادی پروفیسر ایم ایم تقی خان کی تصنیف ہے۔ اس کتاب میں اقبال کے فلسفہ اور فکر کی سائنسی تشریح کی گئی ہے جس سے اقبال کی شاعری اور ان کے فکری اصولوں کو نئے زاویوں سے سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔
دوسری کتاب باقیات اقبال ہے جو کہ ڈاکٹر تقی عابدی کی مکمل تالیف کردہ ہے جس میں اردو اور فارسی اشعار شامل ہیں۔ اس کتاب میں اقبال کی مختلف مکمل متروکہ غزلوں ، نظموں ، رباعیات اور اشعار وغیرہ کی تفصیل سے تشریح کی گئی ہے جس میں اقبال کے پیغام کو موجودہ دور کے تناظر میں پیش کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر تقی عابدی کی یہ کتاب اقبال کی شاعری کی گہرائیوں کو اجاگر کرتی ہے اور باقیات کے مطالعے سے اقبال کی فکر کو مزید بہتر سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
صدارتی تقریر کے بعد سوال و جواب کا سیشن بھی رکھا گیا تھا جس سے حاضرین نے بھرپور استفادہ کیا
جلسے کی کارروائی کو حسبِ معمول علامہ کے لازوال اشعار کی حسین آمیزش کے ساتھ محمد فہیم الدین، نائب صدر اور جنرل سیکرٹری اقبال اکیڈمی جدہ نے خوبصورتی کے ساتھ جاری رکھا .جلسے کے اختتام پر معتمد اقبال اکیڈمی جدہ, سید عبد الوهّاب قادری نے رسمِ شکریہ ادا کیا۔ تمام حاضرین کے لیے تناولِ ماحضر کی دعوت پیش کی گئی۔
تقریب کی براہ راست نشریات یوٹیوب چینل پر اکیڈمی کے میڈیا ٹیم کے ذمہ دار آصف قادری و معاونین عبدالرحمان،حسیب سرور اور سید عرفان حسین اور فیس بک پر علیم الدین اے کے نیوز کی مدد سے کی گئی۔
تقریب کی براہ راست نشریات کو اقبال اکیڈمی کے ذمہ داران بیرون ملک سے ملاحظہ فرما رہے تھے، ضیاء الدین نیر، سید محمود ہاشمی، عبدالحق ہاشم، شمیم کوثر، عبدالمجیب صدیقی نے اپنے اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا۔
اقبال اکیڈمی جدہ کی دعوت پر کینڈا سے تشریف لاۓ ہوے مہمان خصوصی ڈاکٹر سید تقی عابدی کی موجودگی سے استفادہ کی غرض سے ہند و پاک کی کئ تنظیموں نے علمی و ادبی اجلاس منعقد کئے۔ جلسے کے انعقاد اور انتظامات میں محمد معراج علی، مرتضی شریف، ریاض احمد، ڈاکٹر قدرت اللہ بیگ اور عبدالرحمان بیگ نے دست تعاون دراز کیا۔