رپورٹ ۔ افسر حسین
معتمد نشر واشاعت اردوگلبن جدہ
عروس بحر احمر شہر جدہ میں ادبی تنظیم اردو گلبن نے عمرہ اور حج کے سفر پر جدہ انے والے شعراء ادباء اور صحافیوں کے استقبال اور پذیرائی کی اپنی روایت کو برقرار رکھا ہے۔ اسی سلسلے می حیدرآباد کے اپنے وقت کے مشہور شاعر وادیب قاضی انجم عارفی کے فرزند ارجمند قاضی فاروق عارفی کے اعزاز میں ایک نجی شعری محفل جمعرات کو منعقد کی گئ۔
قاضی فاروق عارفی تین کتابوں کے مصنف اور بہت اچھے شاعر ہیں۔ جناب اسلم افغانی صاحب کے دولت کدے پر اس محفل کا آغاز بعد نماز عشاء تناول طعام کے بعد 10 بجے عمل میں ایا۔ اردو گلبن کے صدر بابائے مشاعرہ جناب مھتاب قدر صاحب نائب صدر جناب ناصر برنی صاحب اور سیکرٹری جناب فیصل طفیل صاحب نے مہمان شاعر کا گلہائے عقیدت سے استقبال کرتے ہوئے شہ نشین پر مدعو کیا ۔ صدارت کے لئے شہرہ آفاق صحافی عرب نیوز کے چیف ایڈیٹر جناب سراج الوہاب صاحب کا نام پیش کیا گیا جس کی سب نے زور دار تائید کی۔ کامران خان صاحب نے قران پاک کی تلاوت کی
فیصل طفیل صاحب نے نظامت کی ذمہ داری بخوبی نبھاتے ہوے ماہ مولود رحمت للعالمین رسول انور صل اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں علامہ اقبال کے نعتیہ اشعار بطور عقیدت پیش کرتے ہوئے مشاعرے کا آغاز کیا اور اپنی بہترین شاعری کے ذریعے پہلے ہی مرحلے میں نشست کو دھواں دھار بنادیا ۔
نمونہ کلام ملاحظہ کیجئے
اک عمر ہو چکی تھی سر_آسماں مجھے
دینے لگا صدائیں مرا خاکداں مجھے
کچھ اور بھی پڑاو مری وسعتوں کے ہیں
محدود کر رہے ہیں یہ کون و مکاں مجھے
ان کے بعد جناب انیس احمد صاحب کو دعوت سخن دی گئی دو شعر انکے دیکھئے کہ
ہم ادھورے خواب کی تعبیر سے ڈرتے رہے
عمر بھر اپنی غلط تدبیر سے ڈرتے رہے
رہزنوں نے کارواں لوٹا اجالے میں سدا
ہم مگر سوتی ہوئی شب گیر سے ڈرتے رہے
اسی طرح مشاعرہ کے ماحول کو جناب کامران خان نے آگے بڑھایا
جو صحن کعبہ میں آجائے سرخرو ہو جائے،
کہ ذرے ذرے میں جاہ و جلال ہے اس کا،
طواف کر کے جو لوٹا ہوں کامران اس بار
دل ونگاہ میں رنگ جمال ہے اس کا
مدینہ منورہ سے تشریف لائے جناب سید شجاع الدین مدیح نے نعتیہ اشعار سے ایمان تازہ کیا کہتے ہیں ک
ایسا نہیں کہ جذبہ دل ترجماں نہیں
پر مدحتِ رسول کے قابل زباں نہیں
لکھتا ہوں نعت ہر دفعہ اس اعتراف سے
اک لفظ بھی حضور کے شایانِ شاں نہیں


جناب احمد باشاہ نے کچھ ازاد غزل کی طرح کے اشعار پیش کئے دراصل وہ اس شعر وادب کی رہ گزر کے نووارد ہیں انکی شاعری میں ابھی ایک آنچ کی کسر باقی ہے۔
حسیں لفظوں کا وہ تیکھا سلیقہ ماردیتا ہے
میں شاعر ہوں مجھے اپنوں کا لہجہ ماردیتا ہے
عمربھر کے تجربے نے یہ کہاں پہنچا دیا مجھے
چہرا نہیں دیکھتا اب کردار دیکھتا ہے مجھے
جناب ارشد قدوائی
نے اپنے کلاسیکی لہجے میں روایتی شاعری سنا کر داد لی۔
نہ کوئی آج نہ ماضی میں نہ کل کہتے ہیں
شدت الفت ساقی میں غزل کہتے ہیں
اب بھی باقی ہے محبت مرے کچے گھر میں
اس لئے لوگ اسے تاج محل کہتے ہیں
جناب فرحت اللہ خان نے اپنے شعروں سے نشست کو مزید خوبصورت بنایا کہتے ہیں کہ
محبت کے کچھ اچھے استعارے بانٹ لیتے ہیں؛
چلو اب آسماں کے ہم ستارے بانٹ لیتے ہیں۔
ضروری تو نہیں خوشیاں ہمیں مل جایں دنیا کی؛
پرستارِ محبت ہیں خسارے بانٹ لیتے ہیں۔
جناب افسر بارہ بنکوئ یوں گویا ہوے
وہ گماں کو یقین کہتے ہیں
آسماں کو زمین کہتے ہیں
جن کی باتوں میں لن ترانی ہے
لوگ ان کو ذہین کہتے ہیں
افسر کے بعد عمران اعوان کو دعوت دی گئی
جناب عمران اعوان نے فرمایا
کب بھلا عادتیں بدلتی ہیں
سانپ کے کیچلی بدلنے سے
میں کہیں رک بھی تو نہیں سکتا
گھر جو چلتا ہے میرے چلنے سے
جناب ناصر برنی کی کہنہ مشقی انکے اشعار میں در آئی ہے ملاحظہ کیجئے کہ
روز دریا میں محبت کو بہا آتا ہوں
روز رکھی ہوئی ملتی ہے سرہانے میرے
لوگ فرمائشیں کرتے ہیں نئی غزلوں کی
کون سے شعر پرانے ہیں نہ جانے میرے
اور پھر جناب مھتاب قدر
مشاعرے کو بام عروج پر پہنچانے میں کامیاب رہے
وہ بچہ ہے مگر باتیں بزرگوں جیسی کرتا ہے
بُرے حالات معصوموں کا بچپن چھین لیتے ہیں
کون سا سر بجے گاکیا معلوم
ہم نے تاروں پہ انگلیاں رکھ دیں
اس کے بعد جناب قاضی فاروق عارفی صاحب نے اپنے کلام سے محفل کو گرمادیا۔
سیرت سے متعلق فاروق عارفی کا شعر انکی گہری وابستگی کا اظہار ہے کہ
جب بھی سرکار کی سیرت پہ نظر کرتے ہیں
لفظ قرآن کے آنکھوں میں سفر کرتے ہیں
اور حیات کو مقصد حیات کا راستہ دکھاتے ہوے کہتے ہیں
حیات میری حقیقت میں اب حیات ہوئی
جو تیری ذات سے وابستہ میری ذات ہوئی
آخر میں صدر مشاعرہ نے روایت کے مطابق خطبہ صدارت دیا۔ جناب سراج وہاب صاحب جو انگریزی اور اردو پر یکساں عبور رکھتے ہیں اپنی سحر انگیز تقریر کے ساتھ عمدہ حس مزاح کے لئے بھی جانے جاتے ہیں۔ اس مشاعرہ کے اختتام میں انہوں نے دو غزلیں ترنم سے سنا کر محفل کا رنگ ہی بدل دیا۔ پہلی غزل اظہر عنایتی کی جس کا ایک شعر یوں تھا
کچھ دیر تک تو اس سے مری گفتگو رہی
پھر یوں ہوا کہ وہ مرے لہجے میں اگیا
شرکاء کے اصرار پر مشاعرے کے رسمی اختتام کے بعد بھی انہیں دوبارہ ترنم سے پڑھنے کی زحمت دی گئ
اور سراج وہاب نے ممتاز مفتی کی ایک غزل بھی ترنم سے عطا کی ۔
آخر میں مہتاب قدر کے رسمی شکریہ پر محفل آئندہ اعلان تک کے لئے ملتوی کردی گئی۔
