تحریر: ڈاکٹر سمیرہ عزیز
سعودی عرب آج اپنی جدید تاریخ کے ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے — ایک ایسی قوم جہاں مالی نظم و ضبط بصیرت افروز خوابوں کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ مالی سال 2026 کے لیے حال ہی میں جاری ہونے والا پیش بجٹ بیان محض ایک تکنیکی دستاویز نہیں، بلکہ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ مملکت اپنے مقدر کو کس طرح نئی صورت میں ڈھال رہی ہے۔
بجٹ میں متوقع اخراجات 1,313 ارب ریال اور متوقع آمدنی 1,147 ارب ریال رکھی گئی ہے، جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا 3.3 فیصد بجٹ خسارہ کوئی چیلنج نہیں بلکہ ایک حکمتِ عملی پر مبنی قدم ہے۔ یہ مستقبل کی خوشحالی میں ایک سوچی سمجھی سرمایہ کاری ہے۔ 2028 تک اخراجات کے 1,419 ارب ریال اور آمدنی کے 1,294 ارب ریال تک پہنچنے کی توقع ہے، جو مسلسل وسعت اور ناقابلِ روک ترقی کی علامت ہے۔
اس حکمتِ عملی کی انفرادیت یہ ہے کہ سعودی عرب محض مالی توازن قائم نہیں کر رہا، بلکہ ترقی کے مفہوم کو ازسرِنو متعین کر رہا ہے۔ ویژن 2030 کی رہنمائی میں یہ مالیاتی حکمتِ عملی ایک ایسی کڑی ہے جو آج کی پالیسیوں کو 2030 کے صدیانہ جشنِ یومِ الوطنی سے جوڑتی ہے — جب اقتصادی طاقت اور قومی افتخار ایک عظیم تاریخی لمحے میں یکجا ہوں گے۔
اخراجات – شہریوں اور ترقی میں سرمایہ کاری:
سعودی عرب ایک توسیعی اخراجاتی پالیسی جاری تو رکھے ہوئے ہے، مگر منظم اور بامقصد انداز میں۔ ہر ریال ایسے منصوبوں پر صرف کیا جا رہا ہے جو براہِ راست عوام کی زندگی پر اثر انداز ہوں — تعلیم، صحت، بنیادی ڈھانچہ، ٹیکنالوجی، ثقافت اور کھیل۔ یہ وقتی اقدامات نہیں بلکہ پائیدار خوشحالی کو یقینی بنانے والی ساختی سرمایہ کاریاں ہیں۔
پیغام بالکل واضح ہے: عوام سب سے پہلے۔ تعلیم نوجوانوں کو تیار کرتی ہے، صحت خاندانوں کی حفاظت کرتی ہے، بنیادی ڈھانچہ مواقع پیدا کرتا ہے، ٹیکنالوجی جدّت کو آگے بڑھاتی ہے، اور کھیل قومی جذبے کو مضبوط کرتے ہیں۔
ساتھ ہی حکومت یہ باور کراتی ہے کہ نجی شعبہ ایک تماشائی نہیں بلکہ مکمل شراکت دار ہے۔ ریاض نجی شعبے کو شمولیت کے لیے آمادہ کر کے یہ یقینی بنا رہا ہے کہ معیشت ہمہ جہت، متوازن اور پائیدار انداز میں آگے بڑھے۔
ترقی اور مالیاتی استحکام:
عالمی اتار چڑھاؤ کے باوجود سعودی عرب کی مالیاتی پالیسی متوازن اور مضبوط ہے۔ مملکت کا قومی قرضہ بمقابلہ مجموعی قومی پیداوار محفوظ حدود میں ہے اور بڑے مالیاتی ذخائر اور لچکدار پالیسی سے تقویت پا رہا ہے۔ یہ قیادت کی دانشمندی اور قوم کے استحکام کی علامت ہے۔
سال 2025 میں مجموعی قومی پیداوار (GDP) کی شرحِ نمو 4.4 فیصد رہنے کی توقع ہے، جب کہ غیر نفتی شعبوں میں یہ رفتار 5 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔ بڑھتی ہوئی گھریلو طلب اور روزگار کے نئے مواقع اس مثبت رجحان کو مزید مضبوط بنا رہے ہیں۔ بے روزگاری کی شرح، جو کبھی قومی تشویش کا باعث تھی، اب گھٹ کر تاریخی طور پر 6.8 فیصد تک پہنچ گئی ہے — یہ ایک قابل فخر سنگِ میل ہے جو لیبر مارکیٹ میں مؤثر اصلاحات کی کامیابی کا واضح ثبوت ہے۔
سال 2026 میں حقیقی مجموعی قومی پیداوار میں 4.6 فیصد اضافہ متوقع ہے، جو غیر نفتی سرگرمیوں کے باعث ہوگا۔ یہ کامیابیاں ثابت کرتی ہیں کہ سعودی عرب کی مالی پالیسیاں محض کاغذی حساب کتاب نہیں، بلکہ شہریوں کو بااختیار بنانے، روزگار پیدا کرنے اور ایک متنوع معیشت کے مستقبل کو مضبوط کرنے کا ذریعہ ہیں۔
اصلاحات – شفاف اور جدید ڈھانچہ:
گزشتہ ایک دہائی میں مملکت نے ایسی اصلاحات کو فروغ دیا ہے جو کارکردگی، شفافیت اور لچک کو بڑھاتی ہیں۔ کاروباری قوانین کو آسان بنایا گیا، غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی گئی اور مالیاتی انکشافات کو مضبوط کیا گیا۔
سال 2026 کا پیش بجٹ بیان خود شفافیت کی روشن علامت ہے، جو شہریوں اور سرمایہ کاروں کے لیے مالیاتی اہداف اور ممکنہ خطرات کا واضح نقشہ پیش کرتا ہے۔ یہ شفاف طرزِ عمل اعتماد کو مضبوط کرتا ہے، حکمرانی کے نظام کو مستحکم بناتا ہے، اور چھوٹے و درمیانے درجے کے کاروباروں کے لیے ترقی کا زرخیز ماحول فراہم کرتا ہے۔
صکوک، انفراسٹرکچر بانڈز اور متبادل مالیاتی ذرائع جیسے وسائل کے ذریعے سعودی عرب مالیاتی جدت میں رہنمائی کر رہا ہے اور ایسے راستے کھول رہا ہے جو وسیع تر شمولیت اور خوشحالی کے نئے مواقع فراہم کرتے ہیں۔
غیر نفتی معیشت: ترقی کا نیا انجن
سعودی عرب کی ترقی کی کہانی اب صرف تیل سے وابستہ نہیں۔ آج سیاحت، قابلِ تجدید توانائی، مالیاتی خدمات اور جدید ٹیکنالوجیز آمدنی بڑھا رہی ہیں۔
نیوم، قدیہ اور بحیرۂ احمر جیسے میگا پراجیکٹس صرف تعمیراتی منصوبے نہیں، بلکہ یہ معاشی نظام ہیں۔ یہ نئی صنعتوں، روزگار، طرزِ زندگی اور ثقافتی مواقع کی بنیاد ہیں۔ 2026 تک غیر نفتی شعبہ ترقی کا بنیادی محرک بن جائے گا، جس سے ریاض ایک عالمی جدّت اور سرمایہ کاری کا مرکز بنے گا۔
صکوک اور بانڈز کا اجرا اس منتقلی کو مالی طور پر پائیدار بناتا ہے، جب کہ بنیادی ڈھانچے کی تیز رفتار فنڈنگ معیشت کی ہمہ جہت تخلیق کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ ہے وہ طریقہ جس سے سعودی عرب ایک متنوع اور مستقبل کے لیے تیار معیشت تشکیل دے رہا ہے۔
-2030 ایک متحد قوم، ایک مکمل ویژن
سعودی عرب کی یکجائی کا صد سالہ دن 2030 میں ایک عام قومی دن نہیں ہوگا۔ یہ فخر، استقامت اور تبدیلی کا ایک تاریخی جشن ہوگا۔
تین سنگِ میل مملکت کی فتح کی پہچان ہوں گے:
- ایک جاندار معاشرہ – بہتر صحت، لمبی عمر، کھیل و ثقافت میں بھرپور شمولیت اور عالمی معیار کی شہری سہولیات۔
- ایک خوشحال معیشت – متنوع ترقی، دوگنی غیر ملکی سرمایہ کاری اور سیاحت، ٹیکنالوجی و قابلِ تجدید توانائی میں عالمی قیادت۔
- ایک بلند حوصلہ قوم – مؤثر ای-گورننس، مالی نظم و ضبط اور شفاف ادارے جن پر عوام کو بھروسہ ہو۔
23 ستمبر 2030 کو جب سورج ریاض و جدہ سمیت ہر شہر پر طلوع ہوگا، فضا قومی ترانوں اور فخر سے لبریز عوام کی آوازوں سے گونج اٹھے گی۔ بزرگ ماضی کی قربانیوں کو یاد کریں گے، والدین خوشحالی کا جشن منائیں گے اور نوجوان پرچم لہراتے ہوئے کہیں گے:
"ہمارا کل آج سے روشن ہے۔”
یہ صد سالہ جشن صرف ایک تعطیل نہیں ہوگا — یہ قیادت اور عوام کی وحدت کا زندہ ثبوت ہوگا۔
بجٹ سے قومی وراثت تک:
سعودی عرب کا 2026 کا پیش بجٹ بیان محض ایک مالی منصوبہ نہیں۔ یہ ایک قومی مقدر کا خاکہ ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مملکت 2030 تک ایک ایسی عالمی مثال کے طور پر ابھرنے کی راہ پر ہے جو لچک، اختراع اور اتحاد کا پیکر ہوگی۔
یہ صد سالہ جشن اس بات کی گواہی دے گا کہ سعودی قیادت اور عوام نے مل کر خوابوں کو حقیقت میں بدلا، اور دنیا کو دکھا دیا کہ سعودی عرب کی کہانی ویژن کی تکمیل اور عظمت کی ضمانت ہے۔
یہ صرف 2030 تک کا سفر نہیں۔
یہ اپنے عوام سے مملکت کا وعدہ ہے۔
یہ دنیا کے سامنے سعودی عرب کی میراث ہے۔
مصنفہ کے بارے میں:
ڈاکٹر سمیرہ عزیز جدہ میں مقیم ایک سینئر سعودی صحافی، بزنس ویمن، مصنفہ، شاعرہ اور بین الثقافتی مبصر ہیں۔ وہ ماس میڈیا میں پی ایچ ڈی ہیں اور سعودی عرب میں خواتین صحافت کی بانیوں میں شمار ہوتی ہیں، نیز وژن 2030 کی پُرجوش مؤید ہیں۔ اُن سے رابطہ کیا جا سکتا ہے Consultant.sameera.aziz@gmail.com :
