تحریر: ڈاکٹر سمیرہ عزیز
اسرائیل-فلسطین تنازعہ کے حوالے سے سعودی عرب کا نقطہ نظر ہمیشہ عملیت پسندی اور معقولیت پر مبنی رہا ہے۔ جہاں مملکت اسرائیلی جارحیت کی واضح اور سخت مذمت کرتی ہے، وہیں پر یہ مستقل نوعیت کی انسانی امداد و حکمت عملی سے بھرپور سفارتی کوششوں اور اخلاقی وضاحت کو بھی ترجیح دیتی ہے۔ سعودی عرب نے جذباتی ردعمل سے گریز کرتے ہوئے طویل مدتی اثرات کو ترجیح دی ہے۔ یہ پر سکون اور مضبوط حکمت عملی سعودی عرب کو علاقائی اور عالمی سطح پر فلسطینی حمایت کا ایک انتہائ اہم ستون بناتی ہے۔
نسل در نسل انسانی فلاحی سرمایہ کاری
سال دو ہزار کے عشرے کے آغاز سے سعودی عرب فلسطینیوں کی حمایت میں سب سے زیادہ مستقل اور سخی مددگاروں میں شامل رہا ہے۔ صرف 2000 سے 2018 کے درمیان سعودی عرب نے چھ ارب چالیس کروڑ امریکی ڈالر سے زائد کی امداد فراہم کی، جس میں تقریباً پچیس کروڑ امریکی ڈالر اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے فلسطینی مہاجرین (یو این آر ڈبلیو اے) کو دیے گئے۔ یہ امداد صحت، تعلیم، بنیادی ڈھانچے اور خوراک کی فراہمی جیسے سیکڑوں منصوبوں کو کامیابی سے مکمل کرنے میں مددگار ثابت ہوئی۔
سعودی عرب کی حمایت نے فلسطینی معاشرے کے کئی اہم خانوں کو پُر کیا ہے۔ اس امداد سے ہسپتال و کلینک قائم کیے گئے، مہاجر بچوں کی تعلیم کو جاری رکھا گیا، سرکاری ملازمین کی تنخواہیں دی گئیں اور مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں بنیادی خدمات فراہم کی گئیں۔ 2022 میں جب یو این آر ڈبلیو اے کو مالی مشکلات کا سامنا تھا، سعودی عرب نے 27 ملین امریکی ڈالر کا عہد کیا تاکہ لاکھوں فلسطینی مہاجرین کے صحت اور تعلیمی پروگرام جاری رہ سکیں۔
بحران میں فوری اقدام
اکتوبر 2023 میں شدید کشیدگی کے دوران سعودی عرب نے اپنی امداد میں اضافہ کیا۔ مرکز شاہ سلمان برائےانسانی امداد و ریلیف (کے ایس ریلیف) کے ذریعے مملکت نے 185 ملین امریکی ڈالر کی ہنگامی امداد فراہم کی۔ اس امداد میں غزہ اور ارد گرد کے علاقوں کے لیے خوراک، ادویات اور لاجسٹک مدد شامل تھی۔
حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ عوامی تعاون بھی زبردست رہا۔ “ساھم” امدادی پلیٹ فارم کے ذریعے تقریباً آٹھ لاکھ افراد نے پانچ سو ملین ریال (تقریباً 130 ملین امریکی ڈالر) کی رقم جمع کی، جو فلسطینی عوام کے ساتھ گہری قومی یکجہتی کی علامت ہے۔ 2024 کے آخر تک سعودی عرب نے مسلسل چار ماہانہ امدادی پیکج فراہم کیے اور ہر ماہ ایک کروڑ امریکی ڈالر کی مالی مدد فلسطینی اداروں کی اقتصادی مشکلات کے دوران جاری رکھی۔
عالمی سطح پر سفارتی کوششیں
سعودی عرب کا اثرورسوخ صرف مالی امداد تک محدود نہیں ہے۔ 2023 میں ریاض میں منعقدہ او آئی سی کے خصوصی اسلامی اجلاس میں، مملکت نے انسانی راہداریوں کی فوری فراہمی، جنگی جرائم کی بین الاقوامی تحقیقات، اور اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی کی قیادت کی۔
مزید برآں، سعودی عرب ایک خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے قائم کردہ عالمی اتحاد کی مشترکہ صدارت بھی انجام دے رہا ہے، جو تقریباً نوے ممالک کے ساتھ 1967 کی سرحدوں پر مبنی دو ریاستی حل اور مشرقی یروشلم کو فلسطینی دارالحکومت بنانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ یہ سفارتی کوششیں ایک طویل مدتی حکمت عملی کی عکاس ہیں، جس کا مقصد جذباتی کشیدگی کےبجائے قانونی اور سیاسی ذرائع کے ذریعے پائیدار امن قائم کرنا ہے۔
پرسکون حکمت عملی کی حکمت
تنقید کرنے والے بعض اوقات سعودی عرب کے محتاط رویے کو غیر فعالیت سمجھتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ ایک حکمت عملی ہے۔ دراصل مملکت متعدد ترجیحات کے درمیان توازن قائم رکھتی ہے :
- امدادی کارروائیوں کو بغیر رکاوٹ کے جاری رکھنا۔
- علاقائی اتحادوں کو محفوظ رکھنا اور عرب و اسلامی اقدار کا دفاع کرنا۔
- خاص طور پر غزہ میں شہریوں کو مزید مشکلات سے بچانا۔
- عرب لیگ اور او آئی سی کے اندر ایسے قانونی اور میڈیا نگرانی کے قیام کی قیادت جو فلسطینیوں پرمظالم کی دستاویزات تیار کر سکیں۔
سعودی سفارت کاری اس اصول پر قائم ہے کہ بامعنی تبدیلی شور و غل سے نہیں بلکہ مستقل مزاجی، ہم آہنگی اور دور اندیشی سے آتی ہے۔
عملی اثرات
سعودی عرب کی مدد نے نمایاں نتائج دیے ہیں: - لاکھوں غذائ پیکٹ، شیلٹر کٹ اور طبی سامان فراہم کیا گیا۔
- یو این آر ڈبلیو اے کے اسکولوں، کلینکوں اور خوردہ مالیاتی پروگراموں کو مسلسل تعاون دیا گیا۔
- رفح میں 1500 رہائشی یونٹوں کی تعمیر، جو 70 ملین امریکی ڈالر کے ایک منصوبے کے تحت مکمل ہوئی۔
- فلسطینی علاقوں میں انتظامی، تعلیمی اور صحتی شعبوں میں سہ ماہی مالی امداد جاری رکھی گئی۔
یہ اقدامات وقتی نہیں بلکہ زندگیوں اور اداروں کی تعمیر نو کے لیے ایک جامع تصور کا حصہ ہیں۔
پائیدار امن کے لیے ایک وژن
سعودی عرب کی اسرائیل کے ساتھ معمول پر آنے کی پوزیشن واضح اور اصولی ہے۔ ولی عہد محمد بن سلمان نے بارہا کہا ہے کہ فلسطینیوں کے لیے انصاف اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر کوئی معمول پر آنا ممکن نہیں۔ یہ عرب امن اقدام کے مطابق ہے، جو مملکت نے 2002 میں پیش کیا تھا اور آج بھی اس کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔
حکمت عملی سے مزین یکجہتی کا نمونہ
سال دو ہزار سے اب تک سعودی عرب کی فلسطین کے لیے چھ ارب امریکی ڈالر سے زائد کی امداد، بلاشبہ فوری سپورٹ اور طویل مدتی ریاستی تعمیر کا جامع عزم ظاہر کرتی ہے۔ ایک ایسے عالم میں جہاں سیاست صرف دعووں پر مبنی ہوتی ہے، سعودی عرب کی پائیدار حمایت یہ پیغام دیتی ہے کہ حقیقی قیادت نعروں میں نہیں بلکہ عملی نتائج سے پہچانی جاتی ہے۔

مصنفہ کے بارے میں:
ڈاکٹر سمیرہ عزیز جدہ میں مقیم سینئر سعودی صحافی، کاروباری خاتون، مصنفہ، شاعرہ اور بین الثقافتی مبصر ہیں۔ ماس میڈیا میں پی ایچ ڈی کی حامل، وہ سعودی عرب میں خواتین صحافت کی اولین رہنماؤں میں سے ایک ہیں اور وژن 2030 کی مضبوط حامی ہیں۔ ان سے رابطہ کے لیے :
[Consultant.sameera.aziz@gmail.com]
