از ڈاکٹر سمیرہ عزیز
جغرافیائی سیاست میں ہلچل اور بڑھتی ہوئی مسابقت کے اس دور میں چین کی سفارت کاری میں ایک باریک مگر اہم تبدیلی دکھائی دے رہی ہے، جو حیرت انگیز طور پر سعودی عرب کے حقیقت پسندانہ، کثیرالجہتی اور توازن پر مبنی ممتاز انداز سے مشابہ ہے۔
یہ طرزِ عمل حالیہ دنوں میں بیجنگ کے بھارت اور پاکستان دونوں کے ساتھ روابط میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ 18–19 اگست 2025 کو چینی وزیرِ خارجہ وانگ ای نے نئی دہلی کا دورہ کیا، جہاں مذاکرات میں بھارت–چین تعلقات کو "مستحکم ترقی کی راہ” پر ڈالنے کا عندیہ دیا گیا۔ دونوں ملکوں نے براہِ راست پروازوں کی بحالی، صحافیوں کے لیے ویزا کا اجرا، اور تجارتی و ثقافتی تبادلے کو فروغ دینے پر اتفاق کیا۔ ساتھ ہی سرحدی کشیدگی کو کم کرنے اور سرحدی انتظام کو بہتر بنانے پر بھی زور دیا گیا، تاکہ باہمی احترام اور خطے میں استحکام کو فروغ مل سکے۔
کچھ ہی دیر بعد، وانگ ای اسلام آباد پہنچے جہاں انہوں نے پاک–چین وزرائے خارجہ کے چھٹے اسٹریٹجک مکالمے میں شرکت کی۔ اس موقع پر انہوں نے پاکستان کی خودمختاری اور ترقی کی بھرپور حمایت کا اعادہ کیا اور اسٹریٹجک تعاون کو مزید گہرا کرنے کا وعدہ کیا، بالخصوص علاقائی سلامتی اور دہشت گردی کے خلاف اقدامات میں، جن میں سی پیک (چین–پاکستان اقتصادی راہداری) کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
یہ توازن پر مبنی حکمتِ عملی یعنی بھارت اور پاکستان دونوں کے ساتھ قریب قریب ایک ہی وقت میں روابط قائم کرنا، اس حقیقت کو اُجاگر کرتی ہے کہ چین ایک سوچے سمجھے انداز میں کثیرالجہتی حکمتِ عملی اپنا رہا ہے۔ کسی ایک طرف داری کرنے کے بجائے، وہ خود کو ایک پُرعزم سہولت کار کے طور پر پیش کر رہا ہے، بالکل ویسا ہی جیسے سعودی عرب طویل عرصے سے توازن پر مبنی سفارت کاری کے ماڈل پر کاربند ہے۔
عالمی شراکت داری کی مضبوطی کے لیے مثبت رویّہ
چین کی سفارت کاری کا یہ نیا پہلو بظاہر سعودی عرب کی شاندار اور حقیقت پسندانہ سفارت کاری سے متاثر نظر آتا ہے۔ لگتا ہے کہ چین نے سعودی ماڈل کو اپنی رہنمائی کے لیے اختیار کیا ہے۔ جس طرح چین بھارت اور پاکستان کے درمیان توازن قائم رکھتا ہے، اسی طرح سعودی عرب نے بھی ایک کامیاب اور عملی سفارتی حکمتِ عملی اپنائی ہے۔ چاہے وہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات ہوں یا چین اور امریکا کے ساتھ توازن قائم کرنا، مملکت نے ہمیشہ استحکام اور ہم آہنگی برقرار رکھنے کی بے مثال صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔
آج سعودی عرب دنیا کے تقریباً ہر ملک کے ساتھ مضبوط، تعمیری اور وسیع تعلقات رکھتا ہے اور دشمنی کے بجائے تعاون کو فروغ دیتا ہے، خواہ وہ مشرقِ وسطیٰ کے اندر ہو یا اس سے باہر۔ مملکتِ سعودی عرب نے ایران، یمن، قطر، ترکی اور دیگر ممالک کے ساتھ مثبت تعلقات قائم کر رکھے ہیں، جبکہ اسرائیل کے ساتھ اس کا واضح مؤقف یہ ہے کہ جب تک فلسطین کا مسئلہ منصفانہ طور پر حل نہیں ہوتا، تعلقات قائم نہیں کیے جا سکتے۔
سعودی سفارت کاری اس اصول پر کھڑی ہے کہ اصل اور پائیدار تبدیلی زیادہ شور شرابے سے نہیں بلکہ مستقل مزاجی، ہم آہنگی اور دور اندیشی سے آتی ہے۔ سعودی عرب محض عالمی نظام پر ردِعمل ظاہر کرنے والا ملک نہیں ہے بلکہ اسے فعال طور پر تشکیل دے رہا ہے۔ او آئی سی میں قائدانہ اقدامات سے لے کر نیوم جیسے بڑے منصوبے شروع کرنے تک، مملکت عرب دنیا میں قیادت کو نئے انداز میں متعارف کرا رہی ہے اور مستقبل پر مبنی سفارتی ماڈل پیش کر رہی ہے۔
سرحدوں کے پار امن کا عَلَم بردار
سعودی عرب نے بارہا اپنے آپ کو امن کے ستون کے طور پر پیش کیا ہے، خصوصاً بھارت اور پاکستان کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے دوران، جب مملکت نے پسِ پردہ سفارت کاری کی قیادت کی، جس کے نتیجے میں بامعنی مذاکرات ممکن ہوئے اور دو ایٹمی ممالک کے درمیان ٹکراؤ کا خطرہ ٹل گیا۔ اس امن اقدام کو بعد ازاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی تسلیم کیا۔
منقسم دنیا میں حکمتِ عملی کی درخشانی
آج جب دنیا امریکا اور چین کی قیادت والے بلاکس میں تقسیم ہو رہی ہے، سعودی عرب نے اپنے لیے بطور سفارتی پُل ایک منفرد کردار تراشا ہے۔ کسی ایک طرف کا انتخاب کرنے کے بجائے، اس نے حکمتِ عملی اپنائی ہے اور دونوں طاقتوں کے ساتھ تعلقات کو گہرا کیا ہے تاکہ علاقائی امن اور عالمی تعاون کو یقینی بنایا جا سکے۔ جب کئی ممالک نظریاتی دباؤ میں آ کر کسی ایک جانب کھڑے ہو جاتے ہیں، ریاض امریکا کے ساتھ دفاع اور توانائی میں کام کرتا ہے، جبکہ چین کے ساتھ بیلٹ اینڈ روڈ تعاون کو بڑھا رہا ہے۔ یہ دوہرا تعلق تضاد نہیں بلکہ اعتماد کی علامت ہے، یہ مقصد کے ساتھ سفارت کاری کا بہترین مظاہرہ ہے۔
معاشی توازن کے ذریعے امن
سعودی خارجہ پالیسی کا معاشی پہلو بھی بامقصد شراکت داری پر مبنی ہے۔ 2023 میں چین کے ساتھ سعودی تجارت 107 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی، جو توانائی، بنیادی ڈھانچے اور ٹیکنالوجی پر محیط ہے۔ اسی دوران امریکا کے ساتھ بھی سعودی اتحاد برقرار ہے، جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں دفاع، توانائی اور ٹیکنالوجی میں 600 ارب ڈالر کے معاہدوں سے مزید مضبوط ہوا۔ ریاض کے لیے تجارت اور سفارت کاری ٹرافی نہیں بلکہ امن کے اوزار ہیں۔ سعودی عرب مشرق یا مغرب میں سے کسی ایک کو نہیں چنتا بلکہ وہ توازن کو چنتا ہے۔
چینی سفارت کاری: سعودی نقشِ قدم کی عکاسی
چین کے حالیہ سفارتی قدم، خاص کر بھارت اور پاکستان کے درمیان جو روابط بڑھائے گئے ہیں، وه سعودی ماڈل کے چند اہم پہلوؤں کی نمایاں عکاسی کرتے ہیں:
- جانبداری کے بجائے توازن: کسی ایک ہمسائے پر زیادہ انحصار کرنے کے بجائے، چین دونوں ملکوں کے ساتھ عزت اور برابری پر مبنی تعلقات قائم کرتا ہے۔ بھارت اور پاکستان دونوں کو "اہم ہمسایہ” قرار دے کر بیجنگ ہر فریق کو یہ یقین دلاتا ہے کہ وہ خطے میں ایک متوازن اور سنجیدہ کردار ادا کر رہا ہے۔
- قطبیت کے ماحول میں حکمتِ عملی پر مبنی حقیقت پسندی: جیسے جیسے عالمی اتحاد تبدیل ہو رہے ہیں، خاص کر بھارت اور امریکا کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ جو بلند ٹیرف کی وجہ سے پیدا ہوا، چین نے خود کو مخالف کے طور پر نہیں بلکہ ایک مستحکم اور قابلِ اعتماد متبادل شریکِ سفارت کے طور پر پیش کیا ہے، جو معاشی اور سفارتی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔
- رابطے اور معاشی ترغیبات: پاکستان کے ساتھ سی پیک گفتگو کے ذریعے، اور بھارت کے لیے پابندیوں میں نرمی (جیسے کھاد، ریئر ارتھ منرلز اور بھاری مشینری کی برآمد) دے کر، چین نے خطرات کو کم کیا اور اہم تجارتی راستوں کو دوبارہ فعال بنایا۔ یہی رویہ سعودی عرب کے وژن 2030 کی بنیادی ڈھانچے پر مبنی تعاون کی یاد دلاتا ہے۔
- ثالثی اور علاقائی استحکام: بھارت کے ساتھ سرحدی تنازعہ بروقت سنبھالنا اور پاکستان کی ترقی کے لیے مضبوط حمایت دینا، چین کو ایک باریک بین اور منفرد علاقائی ثالث کے طور پر سامنے لاتا ہے، جو تنازعات کو بڑھانے کے بجائے استحکام کو مضبوط بناتا ہے۔
یوں، چین کی موجودہ سفارت کاری، جو خاموش، ناپ تول کر اور کثیرالجہتی ہے، سعودی عرب کی دیرینہ اور متوازن ڈپلومیسی کی تصویر بن کر سامنے آئى ہے۔ اس سے بیجنگ صرف ایک عالمی قوت ہی نہیں بلکہ ایک باشعور اور علاقائی امن قائم کرنے والا ثالث بھی بن کر ابھر رہا ہے۔
نتائج: سفارت کاری کا ایک نیا موڑ
سعودی طرز کی حکمتِ عملی پر مبنی توازن اختیار کرنا اس بات کی نشانی ہے کہ چین کی خارجہ پالیسی اب زیادہ پختہ اور بالغ سوچ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس تبدیلی کے چند اہم اثرات یہ ہیں:
- جنوبی ایشیا کے عدم استحکام کی تخفیف: بھارت اور پاکستان دونوں کے ساتھ ذمہ داری کے ساتھ تعلقات بڑھا کر، چین خطے میں کشیدگی کم کرنے اور بالادستی کے بجائے شمولیت کے ذریعے استحکام کو ترجیح دے رہا ہے۔
- بڑی قوتوں کے ساتھ تعلقات کی نئی تشکیل: بھارت کی نازک پوزیشن، جو ایک وقت میں امریکا اور چین دونوں کے ساتھ تعلق برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے، ریاض کے توازن قائم رکھنے کے انداز سے مشابہ ہے۔ چین متبادل شراکت داری فراہم کر کے خطے میں ایک زیادہ کثیر قطبی اور مضبوط ڈھانچے کو فروغ دے رہا ہے۔
- ایشیائی صدی کے لیے ابھرتی ہوئی سفارت کاری: عالمی ربط کی حکمتِ عملیوں میں چین اور سعودی عرب کی ہم آہنگی (بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو اور وژن 2030 کا ملاپ) اور علاقائی سفارت کاری اس وسیع تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے جہاں دنیا اب نظریاتی بلاکس کے بجائے عملی اور حقیقت پسندانہ ریاستی سفارت کی طرف بڑھ رہی ہے۔
بامقصد سفارت کاری
آج، جیسا کہ چینی وزیرِ خارجہ وانگ ای کے دہلی اور اسلام آباد کے بیک وقت دورے ظاہر کرتے ہیں، چین ایک ایسی سفارت کاری تشکیل دے رہا ہے جو توازن، مقصد اور وژن پر مبنی ہے، جو محاذ آرائی کے بجائے محتاط مساوات اور مکالمے کو اپناتی ہے۔ اس طرح وہ اس کامیاب فارمولے کی بازگشت سناتا ہے جسے سعودی عرب نے کمال تک پہنچایا اور وسیع ربط، دور اندیشی اور خاموش اعتماد کے ذریعے استحکام قائم کیا۔
ایک منقسم دنیا میں مستقبل ان ہی کا ہے جو دباؤ یا جبر کے بجائے سوچ سمجھ کر، مستقل مزاجی کے ساتھ اور تعمیری انداز میں اثر و رسوخ قائم کرتے ہیں۔ چین کے تازہ اقدامات اس امر کی عکاسی کرتے ہیں کہ وہ سعودی عرب کی مثال سے متاثر ہو کر ایشیا میں زیادہ باریک بینی اور استحکام پیدا کرنے والی طاقت بن کر سامنے آ رہا ہے۔
مصنفہ کے بارے میں:
ڈاکٹر سمیرہ عزیز جدہ میں مقیم ایک سینئر سعودی صحافی، بزنس ویمن، مصنفہ، شاعرہ اور بین الثقافتی مبصر ہیں۔ وہ ماس میڈیا میں پی ایچ ڈی ہیں اور سعودی عرب میں خواتین صحافت کی بانیوں میں شمار ہوتی ہیں، نیز وژن 2030 کی پُرجوش مؤید ہیں۔ اُن سے رابطہ کیا جا سکتا ہے Consultant.sameera.aziz@gmail.com :

