
کے این واصف
مسجد نبوی مین ہمیشہ زائرین کی ایک بڑی تعداد موجود رہتی ہے۔ لیکن کم لوگ مسجد سے متعلق تاریخی اور اس کی تعمیر و توسیع کے حقائق سے واقف ہوتے ہین۔ سعودی خبر رساں ایجنسی ایس پی اے نے مسجد کے دروازوں سے متعلق ایک معلوماتی فیچر جاری کیا ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے اس اقتباسات پیش ہین۔
مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے دروازے جن کی تعداد 100 کے قریب ہے وہ دراصل اپنے اندر مختلف ادوار کی تاریخ سموئے ہوئے ہیں۔
سعودی خبر رساں “ایس پی اے” کے مطابق مسجد نبوی کو دیکھ کر اس کی دیکھ بھال کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
اس عظیم الشان مسجد کی عمارت کے مختلف پہلو ہیں جن میں متحرک گنبد ہوں یا ستون، دالان ہوں یا بیرونی صحن ہر ایک اپنی جگہ نمایاں ہے۔ مسجد نبوی کے دروازوں کی بناوٹ دیکھنے والا کافی دیر تک کی خوبصورتی میں گم ہو جاتا ہے۔ ہر دروازے کو اس مہارت سے تیار کیا گیا ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔
ہردروازہ مختلف ناموں سے ہے جن میں باب السلام، باب الرحمہ، باب جبریل، باب النسا، باب کنگ عبدالعزیز، باب عبدالمجید وغیرہ ہیں جن کے نقوش اسلامی فن تعمیر کا شاہکار ہیں۔
یہ دروازے خادم حرمین شریفین شاہ فہد بن عبدالعزیز کی جانب سے توسیعی منصوبے کے موقع پر تعمیر کیے گئے جن کے لیے عالمی سطح پر شہرت یافتہ ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔
اس توسیع میں سات اہم راستے ہیں جن میں 3 شمالی سمت اور 2 مشرقی اور مغربی جانب ہیں ہر گزرگاہ پر 7 عظیم الشان دروازے نصب ہیں جن میں سے دو دروازے ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر ہیں ان کے درمیان 5 میٹر کا فاصلہ ہے۔ ہر دروازہ 3 میٹر چوڑا او 6 میٹر اونچا ہے جبکہ اس کی موٹائی 13 سینٹی میٹر ہے ہر دروازے کا وزن سوا ٹن کے قریب ہے۔
اتنے بڑے اور بھاری ہونے کے باوجود ان دروازوں کو کھولنا یا بند کرنا کوئی مشکل امر نہین ہے۔
ان دروازوں کی تیاری کے لیے 16 سو میٹر کیوبک میٹر انتہائی مہنگی لکڑی “ساگون” استعمال کی گئی ہے جبکہ ہر ایک دروازے میں 15 سو کے قریب سونے کے پانی سے مزین کانسی کی پلیٹیں لگائی گئی ہیں جن پر دائری شکل میں “محمد رسول اللہ” درج ہے۔
مسجد نبوی کے یہ عظیم الشان دروازے متعدد مراحل اور مختلف ممالک میں تیار کیے گئے۔
کانسی کی پلیٹوں پر سونے کا پانی چڑھانے کا کام فرانس میں ہوا جبکہ لکڑی امریکہ سے حاصل کی گئی اور اسے خشک کرنے کے لیے اسپین کے شہر برشلونہ کا انتخاب کیا گیا جس میں پانچ ماہ کا وقت لگا۔
