
تحریر: ڈاکٹر سمیرہ عزیز – جدہ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں Truth Social پر اعلان کیا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان ایک "مکمل اور جامع جنگ بندی” طے پا گئی ہے، جسے انہوں نے "12 روزہ جنگ” کا اختتام قرار دیا۔ ان کے مطابق، ایران سب سے پہلے حملے روک دے گا اور 12 گھنٹوں بعد اسرائیل بھی فائر بندی کرے گا، یوں 24 گھنٹوں کے اندر مکمل سیز فائر نافذ ہو جائے گا۔ صدر ٹرمپ نے دونوں ممالک کو "حوصلے، ذہانت اور استقامت” پر مبارکباد بھی دی۔
یہ دعویٰ ایسے وقت پر سامنے آیا جب اسرائیل نے ایران کے نیوکلیئر مراکز پر شدید حملے کیے، اور ایران نے قطر میں واقع العدید امریکی اڈے پر میزائل حملہ کیا۔ ایران کی جانب سے بظاہر اس تجویز کو قبول کرنے کے اشارے ملے، لیکن اسرائیل کی طرف سے کوئی سرکاری تصدیق نہیں ہوئی۔ دوسری طرف، اسرائیل کے گولان ہائیٹس میں ہوائی حملے کے الارم بجتے رہے اور تہران میں میزائل الرٹس کے بعد انخلاء جاری رہا — حتیٰ کہ ٹرمپ کے اعلان کے کئی گھنٹے بعد بھی۔
یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ سیاسی شخصیات کی طرف سے قبل از وقت دعوے کس قدر خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ ٹرمپ، جن کے بارے میں قیاس آرائیاں ہیں کہ وہ آئندہ صدارتی انتخاب میں دوبارہ میدان میں ہوں گے، شاید اس اعلان کے ذریعے خود کو "امن کے سفیر” کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں — حالانکہ زمینی حقائق اور سفارتی مذاکرات ابھی طے نہیں پائے۔
ایسے مواقع پر میڈیا کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ سنسنی خیز سرخیاں وقتی توجہ حاصل کر لیتی ہیں، لیکن صحافت کا اصل فریضہ تحقیق، سچائی، اور شفافیت کو فروغ دینا ہے۔ امن صرف خبر نہیں — ایک پیچیدہ، نازک اور وقت طلب عمل ہے، جسے جذباتی بیانات سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اس کے برعکس، سعودی عرب نے ہمیشہ متوازن، شائستہ اور کثیرالطرفہ سفارتکاری کو فروغ دیا ہے۔ مملکت نے یمن میں ریاض معاہدے (2019) کی حمایت کی، اقوام متحدہ اور او آئی سی کے زیر سایہ بات چیت کو آگے بڑھایا، اور ایران سے غیر مستقیم مذاکرات کے لیے قطر و عمان کے ساتھ تعاون کیا۔
اصل اور پائیدار جنگ بندی کے لیے درج ذیل شرائط ضروری ہیں:
- دو طرفہ، شفاف اور تیسرے فریق کی نگرانی میں طے شدہ معاہدے
- جی سی سی، او آئی سی یا اقوام متحدہ کے فریم ورک کے تحت علاقائی تعاون
- بعد از جنگ بندی اقدامات، جیسے کہ انسانی بنیادوں پر امداد اور نیوکلیئر سلامتی پر مکالمہ
اس کے برعکس، ٹویٹر یا سوشل میڈیا پر کی گئی سیزفائر کی اعلانات، محض سیاسی مقاصد کے لیے ہوتے ہیں— جن میں اصل سفارتکاری کی گہرائی نہیں ہوتی۔
سعودی عرب کی ثالثی کی تاریخ مضبوط ہے۔ 2023 کے جدہ ڈیکلریشن کے تحت سوڈان میں امن مذاکرات، اور یمن کے حوالے سے جنیوا و ریاض امن عمل، اس بات کا ثبوت ہیں کہ مملکت جامع اور قابل عمل امن معاہدوں پر یقین رکھتی ہے، نہ کہ محض وقتی بیانات پر۔
اسی سال کے اوائل میں، جب بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی تھی، تو صدر ٹرمپ نے رات گئے ایک مبہم ٹویٹ کیا کہ "معاہدہ ہو چکا ہے”۔ لیکن اصل میں سعودی عرب نے عملی اقدامات کیے۔ وزیر مملکت برائے خارجہ امور عادل الجبیر نے 8 مئی کو نئی دہلی اور 9 مئی کو اسلام آباد کا خفیہ دورہ کیا، جہاں انہوں نے بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقاتیں کیں۔ اسی دوران، سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے علاقائی رہنماؤں سے اعلیٰ سطحی رابطے کیے، تاکہ مملکت کا استحکام کا عزم واضح کیا جا سکے۔ یہ سنجیدہ سفارتی کوششیں، جو بین الاقوامی میڈیا میں کم توجہ حاصل کر سکیں، اس بات کا ثبوت ہیں کہ سعودی عرب جذباتی سفارتکاری کے بجائے حقیقت پر مبنی، بردبار مکالمے کو ترجیح دیتا ہے۔ اس کشیدگی کا خاتمہ بھی دراصل خلیجی ثالثی کا نتیجہ تھا، نہ کہ کسی سیاسی بیان کا۔
اگر ٹرمپ کا حالیہ سیزفائر اعلان حقیقت پر مبنی ثابت ہوتا ہے، تو ممکن ہے عالمی منڈیوں میں وقتی ریلیف ملے— جیسے کہ امریکی خام تیل کی قیمتوں میں کمی اور S&P فیوچرز میں 0.4٪ اضافہ۔ لیکن جب تک اس اعلان کے پیچھے وضاحت، نگرانی اور عملی اقدامات نہ ہوں، تب تک یہ بیانات امن کو "سلوگن” کی سطح تک محدود کر دیتے ہیں۔
سعودی صحافت ہمیشہ سفارتی بلوغت، حقائق پر مبنی رپورٹنگ، اور علاقائی استحکام کو اہمیت دیتی آئی ہے۔ اصل امن تدریج سے ملتا ہے— نہ کہ ٹویٹس میں ظاہر کیا جاتا ہے۔
ہیڈلائنز ماند پڑ سکتی ہیں، لیکن تحقیق، تدبر اور مستند امن طویل عرصے تک قائم رہتا ہے۔

ڈاکٹرسمیرہ عزیز( پی ایچ ڈی ماس میڈیا) جدہ میں مقیم ایک سینئر سعودی صحافی، مصنفہ، شاعرہ اور بین الثقافتی تجزیہ کار ہیں۔ وہ سعودی عرب میں خواتین صحافت کی بانیوں میں سے ایک ہیں اور وژن 2030 کی پُرزور حامی ہیں۔ اُن سے رابطہ کیا جا سکتا ہے: Consultant.sameera.aziz@gmail.com